Orhan

Add To collaction

پہلی نظر

پہلی نظر از قلم امرین ریاض قسط نمبر 16

"تو پھر کیسا لگا سپرائز مائے ڈیئر سُسر جی۔۔۔۔۔۔۔"وہ بلوچ کی طرف طنزیہ مُسکراہٹ اُچھالتے ہوئے بولا جو اُسکی سب باتوں پر ہکا بکا رہ گیا تھا۔ "تُم نے میرے بیٹے کو مارا تُم نے مریام شاہ۔۔۔۔۔۔۔"وہ سکتے سے نکلتے ہی چلانے لگا تھا۔ "صرف بیٹے کو نہیں آپ کے داماد سجاول کو بھی بلکہ ابھی آپکو بھی مارنے لگا ہوں اور اسکے بعد شہباز کی باری،فکر نہ کرو تُمہاری پوری نسل کو اُوپر پہنچا کر ہی دم لونگا۔۔۔۔۔۔۔۔" "نہیں۔۔۔۔۔"اُسکا رنگ لٹھے کی ماند سفید ہو چُکا تھا۔ "کیا ہوا بلوچ خوف آ رہا ہے اپنوں کی موت کا سُن کر،پر بے فکر رہو میں تُمہاری عورتوں کو کُچھ نہیں کہونگا کیونکہ مریام شاہ تُمہاری طرح ظالم تو بن سکتا ہے پر بے غیرت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا لہجہ کاٹ دار تھا بلوچ نے اپنے سُوکھے لبوں پر زبان پھیری۔ "مُجھے معاف کر۔۔۔۔۔" "یہ ڈرامے نہیں چلیں گئے بلوچ کیونکہ یہ تُم بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ تُم مر کر بھی سُدھر نہیں سکتے اور مریام شاہ مر کر بھی تُمہیں معاف نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔۔"مریام اُسکی دوغلی اصلیت سے اچھی طرح واقف تھا کہ وہ مکاری کی آخری حد کو چُھو سکتا تھا۔ "تُم غلط سمجھ رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔"وہ خفیف سا ہو کر بولنے لگا مگر مریام شاہ نے اپنی پتلون میں سے ہاتھ نکال کر اُسے چُپ رہنے کا اشارہ کیا۔ "فالتو بکواس نہیں بلوچ کیونکہ میرے پاس تُمہارے لیے فالتو ٹائم نہیں،کُچھ سوال کرونگا جن کے جلدی جلدی جواب دینا ہونگئے تُمہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"کہتا ہوا مریام شاہ اُس کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔ "میری ماما کو مارنے کی وجہ۔۔۔۔۔۔" "میں نہیں جانتا میں،آہ۔۔۔۔۔"وہ جھوٹ بولنے لگا کہ مریام شاہ نے ُمکا اُس کے ناک پر مار کر اُسکے ناک کی ہڈی توڑ دی۔ "اس سے پہلے کہ میں ایک ایک کر کے تُمہاری تمام ہڈیاں توڑ دُوں مُجھے میرے سوالوں کے سیدھے سیدھے جواب دو۔۔۔۔۔۔۔" "تُمہاری ماں میرے خلاف پریس کانفرنس کرنا چاہتی تھی تا کہ میں سیاست میں حصہ نہ لے سکوں۔۔۔۔۔۔۔"وہ ناک سے نکلتے خُون پر ہاتھ رکھتا بتانے لگا۔ "ماما کو زندہ جلایا تھا یا۔۔۔۔۔۔"یہ پوچھتے ہوئے اُس کے چہرے پر اذیت ہی اذیت تھی۔ "ز،زندہ۔۔۔۔۔۔۔"وہ بمُشکل بولا مگر مریام شاہ نے پسٹل کا رخ اُسکی ٹانگوں کی طرف کرتے گولی چلا دی تھی وہ تکلیف سے کُرلانے لگا۔ "بلوچ تُمہاری موت سب سے بدتر ہو گی،تُم نے میرے پیاروں کو اذیتیں دیں تھیں نہ اب وہ وقت ہی اپنا آپ دہرانے لگا ہے۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے بالوں کو اپنی مُٹھی میں جکڑتا وہ بھینچے ہوئے لہجے میں بولا۔ "اوکے نیکسٹ کوئیسچن۔۔۔۔۔۔۔"وہ اُس سے ہٹ کر دُور ہوا۔ "راٹھور اور حاکم۔۔۔۔۔۔"اُس کے سوال پر بلوچ جو اپنی ٹانگ سے نکلتے خُون کو دیکھ کر تڑپ رہا تھا چونک اُٹھا اور پھر کُچھ سوچ کر ہنس دیا۔ "تُم مُجھے نہیں مار سکتے مریام شاہ،کیونکہ تُمہیں راٹھور اور حاکم کی تلاش ہے اور میرے سوا کوئی بھی تُمہیں اُن تک نہیں لے جا سکتا۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ اُسکی خُوش فہمی پر ہنسا تھا جیسے کسی بچے کی بات پر مُسکرایا جاتا ہے۔ "وہ کیا ہے نہ بلوچ میں تُمہارے ساتھ سات ماہ رہا تو ہوں پر میں تُمہیں ایک بات بتانا بُھول گیا دراصل مریام شاہ کسی کو بھی اپنی کمزوری نہیں بناتا،ایک تھی کمزوری میری جس کا بارہ سال تُم نے فائدہ بھی اُٹھایا پر اب نہیں بلوچ۔۔۔۔۔"وہ رُکا پھر اس کے چہرے پر نظریں گاڑھ کر بولا۔ "ایک اور بات اگلے جہاں جاتے ہوئے بتا دُوں کہ ہم نے راٹھور کو ڈھونڈ لیا ہے اس لیے وہ خُود ہی ہمیں حاکم تک لے جائے گا،تُمہیں اور زندہ رکھ کر میں اب مزید اس دھرتی پر قہر نہیں کما سکتا۔۔۔۔۔۔"مریام نے اپنی پسٹل کا رُخ اُسکے جانب کیا جو کانپنے لگا تھا۔ "نہیں مریام شاہ،میں بتاتا ہوں راٹھور کے بارے تُم مجھے آخری موقع دو۔۔۔۔۔۔۔" "میں تُمہیں ایک سانس بھی اور لینے کا موقع نہیں دے سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام نے اُس کی دوسری ٹانگ پر فائر کیا تھا پھر اُس کے ایک بازو پر پھر دُوسرے بازو پر۔ "یہ تو ہو گیا ڈیڈ،انکل،پھوپھو اور ساحل کی موت کا بدلہ،اب رہا ماما کی موت کا تو یہ لو۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس نے پاس پڑی گیلن اُس کے سر پر ڈال کر آگ لگا دی اگلے ہی لمحے پُورا کمرہ اُسکی دردناک چیخوں سے گونج اُٹھا۔

"______________________________"

وہ ابھی راستے میں تھا کہ بُرہان کی کال آ گئی وہ جانتا تھا اس نے کیا کہنا ہے اس لیے گاڑی سائیڈ پر روک کر کال پک کی۔ "کہاں ہیں آپ بگ برو۔۔۔۔۔۔"اُس نے چھوٹتے ہی پوچھا۔ "آن دا وے،گھر جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔" "آپ نے مار دیا نہ اُسے،پلان کے مطابق اس کے زریعے ہم راٹھور اور حاکم تک جا سکتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔" "اُس کے بغیر بھی جا سکتے ہیں بُرہان۔۔۔۔۔۔" "پر بگ برو۔۔۔۔۔۔" "پر کو چھوڑو بس یہ بتاؤ جب تُم نے نیوز سُنی اُس کی موت کی تو دل کو سکون ملا کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کے پوچھنے پر بُرہان دو پل کو چُپ کر گیا جب بولا تو اُسکا لہجہ سخت تھا۔ "بہت زیادہ سکون ملا یہ سُن کر کے وہ جل کر راکھ ہو گیا،یہ سُن کر کے اُسے قبر نے بھی قبول کرنا گوارا نہیں کیا اور سب سے زیادہ سکون تب ملا جب اُسے حسن شاہ اور ہادیہ شاہ کے بیٹے مریام شاہ نے اُسی اذیت سے مارا جتنی ہمارے پیاروں کو ملی۔۔۔۔۔۔۔۔" "تو پھر اس کے لیے بھی تیار رہو بہت جلد تُمہیں راٹھور اور حاکم کی موت کی اطلاع بھی ملے گی،وہ نہیں جانتے مریام شاہ کیسا قہر ثابت ہوگا اُنکے لیے جس سے بچنا بھی چاہیں تو بچ نہ پائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کے لہجے میں بھی چٹانوں جتنی سختی تھی اور آنکھوں میں بدلے اور نفرت کی آگ صاف دیکھی جا سکتی تھی۔ "تو پھر میں راٹھور سے مُلاقات کر لوں۔۔۔۔۔" "نہیں ابھی وقت نہیں آیا،اُس پر بس نظر رکھو،بلوچ کی موت کی خبر دونوں تک پہنچ چُکی ہو گی اور مُجھے پکا یقین ہے اب وہ لوگ مریام شاہ پر دوبارہ اٹیک ضرور کروائیں گئے۔۔۔۔۔۔۔" "تو پھر اُسکا مطلب اُسامہ کی جان کو ابھی خطرہ ہے۔۔۔۔۔۔"بُرہان نے ایک نظر سوئے اُسامہ پر ڈالی پھر اسلم کو اشارہ کرتا باہر نکل آیا۔ "جب تک وہ دونوں زندہ ہیں تب تک،گُھمن کے مطابق شہباز بلوچ بھی خُون پینے پلانے کے موڈ میں لگ رہا۔۔۔۔۔۔۔"مریام نے گاڑی اسٹارٹ کر کے روڈ پر ڈال دی۔ "تو کوئی بات نہیں ایک دو دن تک اُسکا یہ شوق بھی بُرہان شاہ پُورا کر دے گا،کیا کریں درد دل ہی بہت انکے لیے۔۔۔۔۔۔"بُرہان کے لبوں پر دل جلانے والی مُسکراہٹ چمکی جس پر مریام شاہ بھی مُسکرایا۔ "کب تک چُھٹی ملے گی۔۔۔۔۔۔"وہ شاہ پیلس کے کنگ سائز گیٹ کو کراس کرتا پوچھنے لگا۔ "صُبح سات بجے۔۔۔۔" "تُم صُبح تک اُس کے ساتھ رہنا پر پاس نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"گاڑی سے نکلتا وہ ہدایت کر گیا۔ "اُسامہ کیا شاہ پیلس رہے گا۔۔۔۔۔۔۔" "مُجھے اپنے اور پرخہ کے درمیان ظالم سماج نہیں چاہئیے،اُسامہ سیف ھاؤس رہے گا جب تک وہ مکمل ٹھیک نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کی بات پر بُرہان زیر لب مُسکرایا جسکو مریام شاہ نے محسوس کر لیا۔ "اس میں اتنا مُسکرانے کی کیا بات تھی بُرہان شاہ،اگر میری بیوی کو میرے خلاف کرنے کی کوشش بھی تُم دونوں نے کی تو سچی تُم دونوں کا شاہ پیلس میں داخلہ بند کروا دُونگا۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ ہال میں داخل ہوتا سختی سے تلقین کر گیا۔ "توبہ بگ برو،ہم بھلا ایسا کیوں کریں گئے آپکی ان ہی باتوں کی وجہ سے میں نے نہ تو ابھی شاہ پیلس قدم رکھا ہے اور نہ ابھی تک بھابھی سے ملا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔" "زیادہ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں جانتا ہوں میں تُم دونوں کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ بُرہان کی جذباتی بلیک میلنگ سے واقف تھا بُرہان سر کُھجانے لگا۔ "اوکے میں کال رکھتا ہوں،پھر بات ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے موبائل جیب میں رکھ کر کچن سے نکلتی عامرہ خاتون کو آواز دی۔ "بُوا پرخہ کہاں ہیں۔۔۔۔۔۔" "پرخہ بیٹی اپنے کمرے میں ہیں۔۔۔۔۔۔۔"اُنکے بتانے پر وہ سر ہلاتا سیڑھیاں چڑھنے لگا کمرے میں آیا تو پرخہ کو ٹی وی میں مصروف پایا صوفے پر بیٹھی پوری طرح گُم تھی۔ "کیا دیکھ رہی ہو اتنا محو ہو کے۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کی آواز پر وہ اُچھلی اسے اپنے سامنے مُسکراتا پا کر خُوش ہوتی بولی۔ "شاہ آپ کب آئے۔۔۔۔۔۔" "سیدھا رُوم میں آیا ہوں تُم سے ملنے تُم ہو کہ ٹی وی میں اس قدر ڈوبی تھی کہ میرے آنے کا پتہ بھی نہیں چلا۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ موبائل والٹ اور کیز ٹیبل پر رکھتا بولا وہ شرمندہ سی ہو گئی۔ "وہ میں نیوز دیکھ رہی تھی بس۔۔۔۔۔۔"اُس کے کہنے پر مریام شاہ نے سرسری نظر نیوز پر ڈالی مگر اگلے ہی لمحے بریکنگ نیوز کی چلتی لائنز پر اُسکا دماغ بھک سے اُڑا جہاں ایم این اے قادر بلوچ کی موت کی خبر بار بار دی جا رہی تھی اس سے پہلے کہ پرخہ پیچھے کی جانب مُڑتی مریام شاہ نے اُسے اپنی طرف گھسیٹ لیا۔ "یہ تُمہیں کب سے نیوز دیکھنے کا شوق پیدا ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے مریام نے صوفے سے ریموٹ پکڑ کر چینل چینج کر دیا، "شوق تو نہیں،ویسے ہی لگا لیا۔۔۔۔۔۔" "بور ہو رہی تھی میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے اُس کے بالوں سے کیچر اُتار لیا۔ "آپ کو اس سے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا انداز کُچھ نروٹھا سا تھا مریام شاہ زیر لب مُسکرایا۔ "اوہ تو بیگم صاحبہ ناراض ہے،کوئی نہیں ہم ابھی منا لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے اُسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اُسے اپنے قریب کرتے ہوئے اُسکی پیشانی چُوم لی۔ "آئی نو میں تُمہیں زرا ٹائم نہیں دے پایا جس کے لیے آئم صوری بلکہ اسکا مداوا کرنے کو بھی تیار ہوں اس لیے اب پُورے دو دن تُمہارے نام اب ناراضگی ختم۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرتے ہوئے بولا تو اُس نے سر اثبات میں ہلا دیا۔ "اُس رات صندل بُوا کو میں نے کُچھ شاپنگ بیگز پکڑائے تھے،کہاں ہیں وہ۔۔۔۔۔۔"یاد آنے پر پوچھنے لگا۔ "وہ تو ڈریسنگ روم میں رکھوا دئیے تھے۔۔۔۔۔۔" "مُجھے پُورا یقین ہے کہ تُم نے اُنکو کھولا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔"اُسکی سوچ کے مُطابق جواب آیا تھا۔ "جی میں نے نہیں دیکھا،کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔" "اچھا کیا،بتاتا ہوں تُم ایسا کرو کہ کُچھ دیر کے لیے نیچے جاؤ،جب میں کہونگا تب اُوپر آنا تُمہارے لیے سپرائز ہے۔۔۔۔۔۔۔" "کیا سپرائز ہے۔۔۔۔۔۔"اِس کے تجسس پر وہ ہنس دیا۔ "پریٹی گرل اگر بتا دیا کہ کیا سپرائز ہے تو پھر وہ سپرائز تو نہ ہوا نہ،تُم ایسا کرو کہ عامرہ بُوا کو اپنی پسند کا مینیو بتاؤ آج کا ڈنر تُمہارے ساتھ تُمہاری پسند کا کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے نرمی سے کہنے پر وہ سر ہلاتی چلی گئی تو مریام شاہ ڈریسنگ رُوم میں آیا سب بیگز کو پکڑ کر بیڈ پر رکھا اور سب چیزیں باہر نکال کر کمرے کا جائزہ لینے لگا پھر علینہ کو کال کر کے کُچھ آڈر دے کر اپنے کام میں لگ گیا۔

"___________________________________"

ایک گھنٹہ ہو گیا تھا اُسے مریام شاہ کے باہر آنے کا انتظار کرتے مگر وہ تھا کہ دروازہ بند کیے اندر گُم تھا۔ "یہ آخر کر کیا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ کبھی کچن کبھی لان کے چکر لگاتی اسی سوچ میں ڈوبی تھی۔ "پرخہ ادھر آنا زرا۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کے بُلانے پر وہ اُسکے پاس آئی جو ہاتھ میں کُچھ بیگز لیے کھڑا تھا۔ "مُجھ پر ایک احسان کرو گی اس میں ڈریس ،جوتا اور جیولری ہے ،دس منٹ ہیں تُمہارے پاس ریڈی ہو کر آ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔" "کیوں۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس کے آڈر پر حیران ہوئی۔ "کوئی سوال جواب نہیں ڈارلنگ،جو کہا ہے بس وہ کرو۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے بیگز اُس کے ہاتھ میں دئیے اور اُسے کمرے کی طرف دھکیلا۔ "شاہ آپ۔۔۔۔۔۔" "جسٹ ٹین منٹس،میں دس منٹس کے بعد اسی دروازے کے سامنے ملونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام نے کہتے ہوئے کمرے کا دروازہ بند کیا اور اپنے کمرے میں آیا وارڈرب سے اپنا ڈریس نکالا واش رُوم سے فریش ہو کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بال سیٹ کیے خُود پر پرفیوم چھڑکتا ایک نظر اپنے اُوپر پر ڈالی وہ بلیک پینٹ کوٹ میں ملبوس اپنی شاندار شخصیت کے ساتھ غضب ڈھا رہا تھا اُسے اپنی بھرپور وجاہت کا ادراک تو تھا مگر کبھی اُس کے اندر غرور نام کی کوئی چیز نہیں تھی ہمیشہ لڑکیوں کو اپنی طرف راغب پایا تھا مگر پرخہ کے خیال سے وہ کبھی غافل نہیں ہوا تھا اس لیے یہ کبھی کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا۔ "پرخہ۔۔۔۔۔۔"وہ نیچے آ کر کمرے کا دروازہ نوک کرنے لگا دروازے کو کُھلا پا کر وہ اندر داخل ہوا اُس پر نظر پڑتے ہی جہاں وہ ساکن ہوا تھا وہی اُسکی نظریں بھی اُس کے حسین سراپے پر جامد ہو گئیں تھیں لال سُرخ رنگ کی میکسی جس کے گلے اور باذؤوں پر گولڈن کام ہوا تھا سُرخ ڈوپٹہ ایک کندھے پر رکھے بالوں کو کُھلا چھوڑ کر کیچر لگایا تھا گولڈ کی جیولری اور چوڑیوں میں چہرے پر صرف لپسٹک لگائے وہ سیدھی اسکے دل میں اُتر گئی تھی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر ہاتھ پتلون کی جیبوں میں ڈالے وہ یک اُسے دیکھتا آنکھوں کے راستے دل میں اُتار رہا تھا جو اسکی نظروں کی گرمی سے پگھلتی نظریں جُھکا گئی تھی۔ "آج سے پہلے کبھی کسی منظر نے اتنا بے خُود نہیں کیا جتنا تُمہاری ان جُھکی پلکوں نے،گالوں پر چھائی سُرخی اور ان رس بھرے انگوری لبوں نے اپنی طرف کھینچا ہے کہ دل بے بس سا ہو گیا ہے اور نگاہیں ہیں کہ تُم پر سے ہٹنے کو انکاری ہو گئی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"نہ صرف اُسکا لہجہ گھمبیرتا میں ڈوبا ہوا تھا بلکہ اُسکی نگاہوں کے انداز بھی بہکے بہکے تھے جن کو خُود پر محسوس کرتی وہ نروس ہو رہی تھی اُسکا دل دھک دھک کرنے لگا جب مریام شاہ نے اپنے قدم اسکی جانب بڑھائے۔وہ اُس کے قریب آتا اُسے اپنے احصار میں لے چُکا تھا۔ "یور لُک سو بیوٹی فُل مائے پریٹی وائف،مُجھے اندازہ نہیں تھا تُم اس ڈریس میں اتنی خُوبصورت لگو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" "مُجھے بھی نہیں پتہ تھا آپ اتنے رومانٹک ہونگے۔۔۔۔۔۔۔"وہ اسکی تنگ ہوتی گرفت سے نکلتی اپنے بے تحاشہ دھڑکتے دل کو معمول پر لانے لگی۔ "اور مُجھے بھی نہیں پتہ تھا تُم اتنی ان رومانٹک ہو گی۔۔۔۔۔۔۔"اُسکا اشارہ پرخہ کا اُسکی گرفت سے نکلنے کی جانب تھا جس کو وہ سمجھتی مُسکرائی۔ "خیر چھوڑو،اسکا بدلہ تو بعد میں لیں گئے پہلے میرے ساتھ آؤ۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے کہتے ہوئے اسکی کلائی تھامی اور اسے ساتھ لیے کمرے میں آیا پرخہ نے کمرے میں قدم رکھا تو مریام نے آگے بڑھ کر کمرے کی تمام لائٹس جلا دیں پُورا کمرہ روشنیوں میں نہا گیا جبکہ پرخہ کمرے پر نگاہ دوڑاتی حیران رہ گئی دروازے سے لے کر بیڈ تک گلاب کی پتیوں سے راستہ بنایا گیا تھا جن کے گرد الیکٹریک کینڈلنز رکھی گئیں تھیں پرخہ اُس پر چلتی بیڈ تک آئی جہاں بیڈ پر ایک ہارٹ بنا ہوا تھا جس میں دونوں کے ناموں کے پہلے حروف لکھے ہوئے تھے سائیڈ ٹیبل،ڈرسینگ ٹیبل اور ٹیبلز پر گلاب کے پُھولوں کے گلدستے رکھے ہوئے تھے۔ "شاہ،یہ سب بہت اچھا ہے۔۔۔۔۔۔"وہ گلاب کی پتیوں کو ہاتھ میں لیے اُس سے بولی جو دروازے کے پاس کھڑا دیوار سے ٹیک لگائے اس کے چہرے پر پھیلی خُوشی کو محویت سے دیکھ رہا تھا اُسکی بات پر مُسکرا دیا جس کے نگاہ اب ٹیرس کی طرف اُٹھ گئی تھی جسکی لائٹس مریام نے آف کر دیں۔ "واؤ،شاہ۔۔۔۔۔۔"اُس کے مُنہ سے بے اختیار نکلا ٹیرس پر ٹیبل اور دو کُرسیاں آمنے سامنے لگائی ہوئیں تھیں جن کے اُوپر وائٹ کلر کی الیکٹریک امبریلا جل رہی تھی جس کی گولڈن کلر کی مدھم مدھم روشنی اُس ماحول کو خواب ناک بنا رہی تھی ٹیبل پرا کینڈل اسٹینڈ جس پر لگی چھ کینڈلز اپنی چمکتی لوؤں سے اور ٹیرس کی بیک سائیڈ پر لگے وائٹ کاٹن جن پر سُنہری لائٹس لگی ہوئیں تھیں ،آسمان پر چمکتے تارے اور چودھویں کا چاند اپنی پوری شان سے چمکتا اتنا حیسن منظر پیش کر رہا تھا کہ وہ مہبوت سے دیکھتی رہ گئی۔ "بہت خُوبصورت شاہ،کتنا حسین منظر ہے۔۔۔۔۔۔"وہ اُسکا ہاتھ پکڑتی ٹیرس پر آ گئی۔ "اس چودھویں کے چاند کو دیکھ رہی ہو تُم،مریام شاہ کی زندگی کا بھی تُم چودھویں کا چاند ہو جو بارہ سال تک میرے آسمان سے غائب ہو کر مُجھے اندھیری راتوں کا مسافر بنا گیا تھا مگر اب وہ چاند واپس آ کر میرے چار سُو روشنی بکھیر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر بولا پھر اُسے تھام کر کُرسی پر بٹھایا اور گھوم کر دوسری نشست سمنبھال لی اور پھرچھوٹی موٹی باتیں کرتے اُنہوں نے ڈنر کر لیا۔ "میں اس نائٹ کو کُچھ اسپیشل بنانا چاہتا تھا اس لیے کینڈل لائٹ ڈنر کا سوچا،آئی ہوپ تُمہیں سب اچھا لگا ہوگا اور یہ کھانا سب تُمہاری پسند کا ہے۔۔۔۔۔۔" "بہت اچھا لگ رہا ہے،میں نے تو کبھی ایسا خواب میں بھی نہیں سوچا تھا،سب سے زیادہ تو مُجھے آپکا ساتھ اچھا لگ رہا ہے شاہ۔۔۔۔۔۔۔" "اور مُجھے شاہ کی بیوی سب سے اچھی لگ رہی ہے۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے مُسکراتے لہجے میں کہتے ہوئے اُس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگا لیا پرخہ کے گالوں پر سُرخی چھانے لگی جس کو مریام شاہ نے دلچسپی سے دیکھا تھا ۔ "تُمہارے لیے گفٹ ہے میرے پاس۔۔۔۔۔۔۔"مریام اُس کے قریب آتا اُسکا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا اور اپنی جیب سے ایک مخملی کیس نکال کر اُس میں سے ڈائمنڈ لاکٹ نکال کر پرخہ کو دیا جسے ہاتھ میں لیے وہ پسندیدہ نظروں سے دیکھتی خُوشی سے بولی۔ "بہت خُوبصورت۔۔۔۔۔۔" "پر تُم سے کم،پہنا دُوں اجازت ہے۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے سر ہلانے پر مریام نے لاکٹ اُس کے ہاتھ سے لیا اور اُس کے لمبے سلکی بالوں کو آگے کرتا پہنا گیا۔ "اسی طرح کسی اور کام کی بھی اجازت چاہئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام اُس کے گرد اپنے بازو باندھتا اُسکی پُشت اپنے سینے سے لگا گیا۔ "کس کام کی۔۔۔۔۔۔" "پیار کرنے کی۔۔۔۔۔۔"اُس نے اپنے گال اس کے گالوں کے ساتھ ٹچ کیے پرخہ کا دل زور سے دھڑکا۔ "اپنا آپ مُجھے سونپ دو۔۔۔۔۔۔۔"اس کے بالوں کی خُوشبو چُراتا وہ سرگوشی کر گیا پرخہ شرم سے سُرخ ہوتی اس کے سینے میں ہی مُنہ چُھپا گئی۔مریام شاہ نے اُسے اپنے مظبوط بازؤوں میں اُٹھایا اور قدم بیڈ کی طرف بڑھا دئیے اُسے نرمی سے بیڈ پر لٹا دیا اور خُود اُس پر جُھکا جو اس قدر نزدیکی پر لال سُرخ ہوتی دھڑکنوں کی تیز رفتار پر حیران تھی جو معمول سے ہٹ کر چل رہی تھیں۔ "میری قُربت نروس کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ نے گہری نگاہوں سے اسکے سُرخ چہرے کی طرف دیکھا جس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔ "اور مُجھے تُمہاری قُربت مدہوش کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ پیشانی سے شُروع ہوتا گردن تک اپنے لبوں سے مُہریں ثبت کرتا چلا گیا پرخہ نے اپنی آنکھیں زور سے میچ لی تھیں۔ "یار اتنا ڈر کیوں رہی ہو۔۔۔۔۔۔"ڈوپٹہ اسکے وجود سے ہٹاتا وہ زیر لب مُسکرا کر بولا جس پر پرخہ نے آنکھیں کھول کر اسکی مُسکراتی اور شرارتی آنکھوں کو دیکھا تو سٹپٹا کر دوبارہ آنکھیں بند کر گئی مریام شاہ ہنس دیا اس سمے اسے پرخہ پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا جس کا اظہار کرنے میں اُس نے ایک پل کی دیر نہیں لگائی تھی۔ "شاہ۔۔۔۔۔۔"وہ بمُشکل بولی۔ "ہاں بولو،پلیز کمرے کی لمبائی چوڑائی پر غور کرنے کا اس ٹائم میرا کوئی موڈ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ اپنا کوٹ اُتار کر سائیڈ پر رکھتا شرارت سے بولا تو پرخہ اسکی بات کا مطلب سمجھتی مُسکراتی ہوئی اُس کے سینے میں ہی مُنہ چُھپا گئی تو مریام شاہ بھی مُسکراتے ہوئے اپنی گرفت مظبوط کرتا چلا گیا اور اس پر اتنا ٹوٹ کر برسا کہ اُسکا تن من اس کے پیار کی برسات میں بھیگنے لگا۔

"______________________________"

شہباز بلوچ نے گُھمن کے کہنے پر تھانے جا کر رپورٹ کروا آیا تھا اور پھر مریام شاہ کی سوچ کے عین مُطابق راٹھور نے خُود ہی شہباز بلوچ سے رابطہ کر لیا تھا اس وقت وہ دونوں بلوچ ھاؤس میں تھے۔ "کیا میں آپکا چہرہ دیکھ سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔"شہباز بلوچ نے اس کے ماسک کے پیچھے چُھپے چہرے کی طرف دیکھ کر ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔ "نہیں۔۔۔۔۔۔"سپاٹ انداز پر وہ چُپ رہ گیا جو کہہ رہا تھا۔ "تُمہارے باپ کو مارنے والا بلوچ ھاؤس میں ہی چُھپا ہے کسی نہ کسی رُوپ میں اور میں ایسا چانس کبھی نہیں لیتا جس میں مُجھے اپنی جان کا خطرہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔" "کون ہے وہ آپ بتائیں مُجھے میں اُسکی جان لے لونگا۔۔۔۔۔۔۔۔"وہ جوش میں آیا۔ "اگر یہ پتہ ہوتا تو تُمہارا باپ نہ مرتا،جو کوئی بھی ہے بہت ہویشیاری سے اپنا کام کر رہا،اگر وہ پکڑا جائے تو مریام شاہ تک جانا آسان ہو جائے۔۔۔۔۔۔" "کوئی ہنٹ مل سکتا ہے مُجھے کہ اُسکی پہچان کرنے کے لیے مُجھے کیا کرنا ہوگا کیونکہ اب اُسکا اور ہمارے درمیان رہنے کا مطلب میری اور میری فیملی کی جان کو بھی خطرہ ہے۔۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات سُن کر راٹھور اپنی جگہ سے اُٹھا اور کُچھ سوچتا ہوا ونڈو سے باہر دیکھنے لگا۔ "جونیجو بہت خاص آدمی تھا تُمہارے باپ کا،کہاں ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔" "وہ تو چُھٹی لے کر اپنے ماں باپ کے ساتھ دوسرے گوٹھ گیا،کیوں آپکو اُس پر شک ہے۔۔۔۔۔۔" "شک تو ہر ایک بندے پر اب کرنا پڑے گا ہمیں،تُم ایسا کرو اُسے بُلاؤ یہاں،میں اُس سے ملنا چاہتا ہوں ہمیں یقین ہے اُسکے پاس ضرور کوئی بات ہو گی آخر وہ مریام شاہ کے ساتھ کام کر چُکا ہے۔۔۔۔۔۔۔" "آپ اُس کے سامنے جائیں گئے۔۔۔۔۔۔"شہباز بلوچ حیران ہوا۔ "تُمہارے باپ کی طرح احمق نہیں ہوں میں کہ ایسے ہر ایک پر اعتبار کر لُوں،کرنا ہوتا تو تُمہارے سامنے ایسے نہ آتا میں اُس کے سامنے بھی ایسے ہی آؤنگا۔۔۔۔۔۔۔"کہتے ہوئے وہ اپنا موبائل ٹیبل سے اُٹھانے لگا۔ "تُمہارے باپ کو مریام شاہ نے بہت بُری موت دی ہے کہ اُسکی لاش بھی نہیں مل سکی،اُس سے بدلہ لینا اب تم پر فرض ہے اس لیے مریام شاہ پر نظر رکھو آج ہسپتال سے چُھٹی مل گئی اُسے۔۔۔۔۔۔۔"کہتا ہوا وہ پچھلے دروازے سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھا پیچھے شہباز بلوچ کُچھ سوچتا اپنا فون نکال کر نمبر ملانے لگا۔

"_________________________________"

وہ واش رُوم سے فریش ہو کر باہر آیا تو اُس کا فون وائبریٹ کرنے لگا ٹاول سے بالوں کو خُشک کرتا وہ چلتا ہوا سائیڈ ٹیبل پر آیا جہاں شہباز بلوچ کالنگ نظر آ رہا تھا ایک نظر سُوئی پرخہ پر ڈالتا وہ ٹیرس پر آ گیا۔ "جی بلوچ سائیں۔۔۔۔۔۔۔" "ہاں جونیجو آج ہی واپس آؤ۔۔۔۔۔۔۔"اُس کے آڈر پر مریام شاہ کے چہرے پر ناگواری آئی۔ "کیوں خیر ہے بلوچ سائیں،بڑے سائیں تو ٹھیک ہیں نہ۔۔۔۔۔۔۔" "نہیں اُنکو مار دیا مریام شاہ نے،تُم بس جلدی آؤ واپس۔۔۔۔۔۔"اُس نے کال بند کر دی جبکہ مریام شاہ اسکے یوں آڈر کرنے پر کُچھ سوچتا بُرہان کو کال ملا گیا۔ "پہنچ گئے سیف ھاؤس۔۔۔۔۔۔۔"چُھوٹتے ہی پوچھا۔ "جی بگ برو۔۔۔۔۔۔" "شہباز بلوچ جونیجو کو واپس آنے کا کہہ رہا وہ بھی آج،اُسکی اتنی جلدی کے پیچھے کوئی وجہ لگ رہی مُجھے۔۔۔۔۔۔" "گُھمن سے بات ہوئی تھی میری راٹھور بلوچ ھاؤس آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔"بُرہان کی اطلاع پر اُس نے سر ہلایا۔ "اوہ تو میں اب سمجھا،راٹھور کے کہنے پر اگر شہباز مُجھے بُلا رہا ہے تو اُسکی دو وجہ ہو سکتی ہیں یا تو اُسے مُجھ پر شک ہے یا پھر وہ جونیجو کو مریام شاہ کے خلاف استمال کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔"مریام شاہ کے دماغ نے کام کیا تھا۔ "اور بگ برو یہ آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں یہ دونوں وجہ ہمارے ہی فائدے کی ہیں۔۔۔۔۔۔"اُسکی بات پر مریام شاہ مُسکرایا۔ "کیا آپ جا رہے بلوچ ھاؤس۔۔۔۔۔۔۔"بُرہان کے پوچھنے پر مریام شاہ نے پلٹ کر سُوئی ہوئی پرخہ کو دیکھا جس سے وہ دو دن رہنے کا وعدہ کر چُکا تھا۔ "نہیں آج نہیں کل شاید جاؤں،اوکے پھر اُسامہ کا خیال رکھنا بائے۔۔۔۔۔۔۔"کال بند کرتا موبائل ہاتھ میں لیے کمرے میں آیا۔

"__________________________________"

   0
0 Comments